ستاروں کی روشنی
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے
ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی
رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب
اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے
توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے
ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی
رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب
اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے
توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
چبھتی ہے قلب و جاں میں
تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے
No comments:
Post a Comment